حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی افضیلت پر حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی نے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے متعدد اقوال کو نقل کیا ہے ۔ اسی طرح آئمہ اہلبیت اطہار کے ارشادات کو بھی جمع کیا ۔ بطور خاص حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات حسرت آیات پر حضرت علی مرتضیٰؓ نے جن کلمات سے خراج عقیدت پیش کیا وہ تاقیامِ قیامت ساری اُمت محمدیہ کے لئے نمونہ ہے
’’حضرت اسید بن صفوان روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر ؓ نے وفات پائی اور ان پر چادر اُڑھادی گئی تو سارا مدینہ رونے کی آواز سے گونج اُٹھا اور تمام لوگ شدت غم سے ایسے مدہوش ہوگئے جیسے اس دن ہوئے تھے جس دن رسول اﷲ ﷺ نے وصال فرمایا تھا ۔ حضرت علی بن ابی طالب تیز رفتاری سے چلتے ہوئے روتے ہوئے ’’اناللّٰہ‘‘ کہتے ہوئے تشریف لائے اور دروازہ پر ٹھہرگئے پھر فرمایا : خدا آپ پر رحمت نازل فرمائے … آج خلافت نبوت کا خاتمہ ہوگیا … اے ابوبکر ! آپ رسول اﷲ ﷺ کے دوست تھے اور آپ رازدار اور مشورہ دینے والے تھے ،آپ سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے زیادہ خالص الایمان تھے اور سب سے زیادہ اسلام پر شفقت کرنے والے تھے اور اصحاب رسول اﷲ ﷺ کے حق میں بہت بابرکت تھے اور سب سے زیادہ رسول اﷲ ﷺ کا حق رفاقت ادا کرنے والے تھے اور سب سے زیادہ مناقب میں اور سب سے افضل سوابق اسلامیہ میں اور سب سے بلند مرتبہ اور سب سے زیادہ مقرب اور سب سے زیادہ روشن عادات ، مہربانی اور بزرگی میں رسول اﷲ ﷺ کے مشابہ تھے اور سب میں مرتبہ کے لحاظ سے اشرف تھے اور سب سے زیادہ رسول اﷲ ﷺ کے نزدیک باعزت تھے اور سب سے زیادہ آپ کے نزدیک باوثوق تھے ، اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام کی طرف سے اور اپنے رسول کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔ آپ رسول اﷲ ﷺ کے نزدیک بمنزلہ کان اور آنکھ کے تھے ۔ آپ نے رسول اﷲ ﷺ کی تصدیق اس وقت کی تھی جب تمام لوگ اُن کی تکذیب کرتے تھے ۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں آپ کا نام صدیقؓ رکھا چنانچہ فرمایا وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖ ’’ اور وہ ذات جس نے سچائی کو لایا (نبی اکرم ﷺ ) اور وہ ذات جس نے ان کی تصدیق کی ( ابوبکر صدیقؓ )‘‘ آپ نے رسول خدا کی غمخواری کی اس وقت جبکہ اور لوگ بخل کرتے تھے اور آپ نے آنحضرت ﷺ کی رفاقت مصائب کے وقت میں کی جبکہ اور لوگ بیٹھے رہے تھے اور آپ نے سختی کے زمانہ میں ان کی صحبت اختیار کی آپ صحابہ میں سب سے مکرم ، ثَانِیَ اثْنَیْنِ( دو میں کے دوسرے ) اور غار میں رسول اﷲ ﷺ کے ساتھی تھے جن پر سکینہ اور وقار نازل ہوا اور آپ ہجرت میں رسول اﷲ ﷺ کے رفیق اور خدا کے دین میں اور اُمت میں آپ ﷺ کے خلیفہ تھے ، آپ نے خلافت کو بحسن و خوبی ادا کیا اور اس وقت آپ نے وہ کام کیا جو کسی نبی کے خلیفہ نے نہ کیا تھا ۔ آپ مستعد رہے جب کہ آپ کے ساتھی سستی ظاہر کرتے تھے اور آپ میدان میں آگئے جب کہ وہ چھپ رہنا چاہتے تھے اور آپ قوی رہے جبکہ وہ ضعف ظاہر کرنے لگے اور آپ نے طریقہ رسول کو مضبوط پکڑا جبکہ وہ لوگ اِدھر اُدھر بھٹکنے لگے تھے۔ آپ کی خلافت منافقوں کی ذلت ، کافروں کی ہلاکت ، حاسدوں کی ناگواری ، باغیوں کی ناخوشی کا سبب تھی اور آپ اس وقت امرحق کے اجراء میں قائم ہوئے جبکہ اور لوگوں نے ہمتیں پست کردی تھیں اور آپ ثابت قدم رہے جبکہ اور لوگوں میں تردد پیدا ہوا اور آپ نور الٰہی کے ساتھ (پُرخطر ) راستوں میں گزرگئے جبکہ اور لوگ توقف پذیر ہوگئے تھے پھر (آپ کو راہ پر دیکھکر ) سب نے آپ کی پیروی کی اور سب نے راہ پائی اور آپ آواز میں سب سے پست تھے اور فوقیت میں سب سے برتر تھے اور آپ کلام کرنے میں سب سے بہتر تھے اور آپ کی گفتگو سب سے زیادہ صائب ، آپ کی خاموشی سب سے بڑھی ہوئی تھی آپ کا قول سب سے زیادہ بلیغ تھا ، آپ کا دل سب سے زیادہ شجاع تھا اور آپ ’’اُمور‘‘ کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے ، عمل کے لحاظ سے سب سے زیادہ اشرف تھے۔ قسم خدا کی آپ دین کے سردار تھے جب کہ لوگ دین سے بھاگے تھے اور آخر میں بھی جبکہ لوگ دین کی طرف متوجہہ ہوئے ۔ آپ مسلمانوں کے مہربان باپ تھے ۔ یہاں تک کہ سب مسلمان آپ کے بال بچے ہوگئے ، جس بار کے اُٹھانے سے وہ ضعیف تھے وہ بار آپ نے اُٹھالیا ، جو اُمور ان سے فروگذاشت ہوئے تھے آپ نے ان کی نگہداشت کی اور جسکو اُنھوں نے ضائع کیا آپ نے اس کی حفاظت کی اور جس بات سے وہ جاہل رہے آپ نے اسے جان لیا … آپ اس حلافت میں داخل ہوئے اور انتہاء تک پہنچ گئے اور اس کے فضائل حاصل کرلئے اور اس کے سوابق پائے ، آپ کی حجت نے کمی نہ کی ، آپ کی بصیرت ضعیف نہ ہوئی آپ کے دل نے بزدلی نہ کی اور آپ کا قلب نہ گھبرایا ، آپ حیران نہیں ہوگئے ۔ آپ پہاڑ کے مانند تھے جسے بادل کا گرجنا اور تیز آندھیاں اپنی جگہ سے ہٹا نہ سکیں۔ حسب ارشاد نبوی آپ رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ اپنی رفاقت اور مال سے سب سے زیادہ حسن سلوک کرنے والے تھے نیز حسب ارشاد نبوی ﷺ آپ اپنے بدن میں ضعیف تھے مگر خدا کے کام میں قوی تھے ، منکسرالنفس تھے مگر خدا کے نزدیک باعظمت تھے ، لوگوں کی نظر میں جلیل القدر تھے۔ کسی شخص کو آپ میں موقعہ نہ ملتا تھا ، اور نہ کوئی گرفت کرنے والا آپ میں عیب نکال سکتا تھا اور نہ کوئی (خلافِ حق ) کی طمع کرسکتا تھا اور نہ کسی کی آپ کے یہاں رعایت تھی ، جو ضعیف و ذلیل تھا وہ آپ کے نزدیک قوی و غالب تھا ، یہاں تک کہ اس کا حق دلادیتے تھے اور قوی (ظالم) آپ کے نزدیک ذلیل تھا یہاں تک کہ آپ اس سے حقدار کا حق لے لیتے تھے اس بارے میں قریب و بعید آپ کے نزدیک یکساں تھے ، سب سے زیادہ مقرب آپ کے یہاں وہ تھا جو اﷲ کا بڑا مطیع اور اس سے بڑا ڈرنے والا تھا ، آپ کی شان حق گوئی سچ بولنا اور نرمی تھی ، آپ کی بات حتمی فیصلہ اور قطعی تھی اور آپ کا سراسر حلم و ہوشیاری تھا ۔ آپ کی رائے علم اور عزم مصمم تھی آپ نے جب ہم سے مفارقت کی تو ہم کو اس حال میں چھوڑا کہ راہ حق صاف تھی اور دشواریاں آسان ہوگئی تھیں اور آگ بجھ گئی تھی ، آپ سے ایمان قوی ہوگیا تھا اور اسلام و مسلمان ثابت قدم ہوگئے تھے اور خدا کا حکم ظاہر ہوگیا تھا اگرچہ کافروں کو ناگوار گزرا پس آپ بخدا ! سب پر سبقت لے گئے اور بہت دور پہنچ گئے اور اپنے بعد لوگوں کو سخت تعب و تکلیف میں ڈالا اور واضح طورپر خیر تک پہنچے ۔ اب آپ نے ( وفات کے صدمے سے ) رونے میں مبتلا کردیا ۔ آپ کی مصیبت آسمان میں بڑی باعظمت ہے ، آپ کی مصیبت نے لوگوں کو شکستہ دل کردیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ قسم خدا کی رسول اﷲ ﷺکے بعد کبھی مسلمان آپ کے جیسے شخص کی وفات کی مصیبت نہ اُٹھائیں گے ۔ آپ دین کی عزت اور دین کی حفاظت اور دین کی پناہ تھے اور مسلمانوں کا مرجع و ماویٰ اور ان کے فریادرس تھے اور منافقوں پر سخت اور ان کے غصہ کا سبب تھے ۔ اﷲ آپ کو آپ کے نبی ﷺ سے ملادے اور ہمیں آپ کے غم میں صبر کرنے والے اجر سے محروم نہ رکھے اور اپ کے بعد ہمیں گمراہ نہ کرے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ راوی کا بیان ہے کہ سب لوگ خاموش رہے جب حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے اپنی تقریر ختم کی تو سب روتے رہے یہا ںتک کہ ایک کہرام مچ گیا
One day Abu Bakr as-Siddiq Radi Allahu anhu came to Rasûlullah’s ‘sall-Allâhu ’alaihi wa
sallam’ place. He was about to enter, when Alî bin Abî Tâlib ‘radiy-Allâhu ’anh’ arrived,
too. Abû Bakr stepped backwards and said,
“After you, Ya Ali.” The latter replied and the following long dialogue took place between
them:
Hazarath Ali razi allah anhu - Ya Abâ Bakr, you go in first for you are ahead of us all in all goodnesses and acts of charity.
It is a collective agreement [Ijmāʻ] of the scholars of Ahl as-Sunnah wal-Jamāʻh that the greatest person in this Ummah is Abū Bakr, then ʿUmar, then ʿUs̱mān and then ʿAlī, radiyAllahu anhum.
The greatest Sufi masters have also affirmed this tenet of the Sunnī creed. Particularly, the Naqshbandī masters hold this belief firmly, not only based on the authentic narrations, but also by their Kashf.