رب تبارک وتعالیٰ ہمیشہ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے انبیائے کرام کو مبعوث فر مایا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آخری نبی محمد رسول ا للہ صادق ا لو عدالا مین نے بنی نوع انسا نوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدا نیت کا پیغام دیا اور رشدو ہدایت کی تعلیم دی اور بتا یاکہ: اِھْدِ نَا ا لصِّرَاطَ ا لْمُسْتَقِیْمَ ہی سیدھا راستہ ہے، اسی پر چل کر انسان اللہ کی بار گاہ کا پیا را بندہ ہونے کاشرف حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اولادِآدم سے اس بات کا عہد لیا ہے کی میرا راستہ سیدھا ہے، اسی پر چلنا ،شیطان کو نہ پوجناارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اے اولادِ آدم !کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کونہ پوجنا،بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،اور میری بندگی کرنا ،یہ سیدھی راہ ہے۔‘‘( یٰسین61,60)۔
جب نبی آخر الز ماں نے نبوت کا اعلان فر مایاتو لو گوں کو اسلام کی دعوت دی کہ اے لو گو! اللہ ایک ہے، اسی کی عبادت کرو اور میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ محمد رسو ل اللہ صادق الو عدالامین کا اعلان سنتے ہی سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم کو گلے لگا لیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: لَااِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمْدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ’’میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔
نبی اکرم پر ایمان لانیوالے سیدنا ابو بکر صدیقؓ سب سے پہلے انسان ہیں۔ظا ہری اعلان نبوت سے پہلے ہی رسول اللہ صادق الو عدالا مین کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ کی سچائی پر اعتبار کر نے پر اور ایمان لانے پر حضرتِ ابوبکرؓ کو ’’صدیق ‘‘ کا لقب ملا۔
سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ایمان لانے کا واقعہ بہت دلچسپ وطویل ہے۔ مختصر تفصیل یہ ہے:
ربیعہ بن کعب فر ماتے ہیں: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا آسمانی وحی کی مانند تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ: اسلام سے قبل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار علاقہ کے بڑے تاجروں میں ہو تا تھا۔ ایک مر تبہ تجارت کے سلسلے میں آپ ملک شام تشریف لے گئے۔ یہاں قیام کے دوران ایک رات آپ نے خواب دیکھا کہ چاند اور سورج آسمان سے نیچے اتر آ ئے ہیں اور آپ کے گود میں داخل ہوگئے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق نے ایک ہاتھ سے چاند اور سورج کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگالیا۔ حضرت ابو بکرؓ نیندسے بیدار ہوئے تو اس عجیب وغریب خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے قریب ہی ایک راہب کے پاس گئے۔ اس راہب نے سارا خواب سن کر آپ سے پو چھا: تم کہا ں سے آئے ہو؟ آپ نے فر مایا:مکہ سے۔اس نے پھر پو چھا: کیا کرتے ہو؟ فر مایا: تاجر ہوں؟ وہ راہب کہنے لگا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہا رے خواب کو سچ فر مادیا، تو وہ تمہا رے ہی قوم میں ایک نبی مبعوث فر مائے گا، اس کی زندگی میں تم اس کے وزیر ہو گے اور وصال کے بعد اس کے جا نشین ہو گے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس واقعہ کو پو شیدہ رکھا اور کسی کو نہیں بتایا، اور جب حضور نے نبوت کا اعلان فر مایا تو آپؓ نے یہی واقعہ بطور دلیل حضور کے سامنے پیش کیا اور حضور کو گلے لگایا اور پیشانی چومتے ہو ئے کہا :میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اسی وجہ کر آپ نے حضرت ابوبکرؓ کو ’’صد یق‘‘ کے لقب سے نوازا(ریا ض النضرۃ)۔
’’اور وہ جو یہ سچ لیکر تشریف لائے اور جنھوں نے اس کی تصد یق کی یہی ڈر والے ہیں، ان کے لیے ہے وہ جو چا ہیں اپنے رب کے پاس، نیکیوں کا یہی صلہ ہے۔‘‘
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے درجہ والے ہیں۔ صواعق مرحقہ میں بروایت ابن عساکر ہے، حضرت علی کر م اللہ وجھہ الکریم یوں ارشا د فر ماتے ہیں:
’’ سچائی لانے والے حضو ر ہیں جو بظاہر اعلان نبوت سے پہلے ہی صا دق الو عد الا مین سے مشہور تھے ۔یہ لقب نہ پہلے کسی کو ملا تھا نہ ہی قیا مت تک کسی کو ملے گا،اور سچائی کی تصدیق کر نے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ اللہ کے وہاں اِن کا بڑا درجہ، بڑی عزت ،بہت شان و شوکت ہے، یہ آیت کریمہ اس امر کی گواہ ہے(تفسیر نو رالعر فان)۔
اور یہ آیت کریمہ صحا بۂ کرام کی شان وعظمت و فضیلت میں چار چاند لگا رہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اور مہا جرین کے مدد گار(انصار) میں سے سبقت لے جا نے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجہ احسان کے ساتھ ان کی پیر وی کر نے والے، اللہ ان(سب) سے راضی ہو گیا اور وہ(سب) اللہ سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبر دست کامیابی ہے۔‘‘
تمام صحا بہ کرام ؓکے جنتی ہو نے کا اعلان قرآن کریم میں ہو چکا ۔صحابۂ کرام کی تعداد ایک لاکھ 24 ہزار ہے جن میں بعض کے فضا ئلِ خصوصی قرآن و حدیث میں منقول ہیں جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو سب سے پہلے ایمان لائے، پھر عور توں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ( پہلے ایمان لانے سے آپ کو بھی’’ کُبریٰ‘‘ کا خطاب ملا) اور بچوں میں حضرتِ علی کر م اللہ وجھہ الکریم۔ حضرتِ ابو بکر صدیق ؓکا لقب’’یارِغار ‘‘ بھی ہے جسکا ذکر سورہ تو بہ میں مو جود ہے۔آ پ کا’’ لقب ثانی اِثنین ‘‘بھی ہے ۔حضور اکرم کے بعد سب سے بڑا آپؓ کادر جہ ہے کہ انھیں رب نے حضور کا ثانی فر مایا( سورہ تو بہ، آیت 9)۔ اسی لیے حضور نے انھیں اپنے مصلیٰ پر امام بنایا۔حضور کے حیات میں آپؓ نے 9بار امامت فر مائی۔سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی فضیلتوں میں یہ بھی ہے کی آپؓ کی 4 پشت صحابی ہیں:(1) آپؓکے والدین بھی صحا بی ہیں(2)آپؓ خود بھی صحا بی ہیں(3)آپؓ کی اولاد بھی صحا بی ہیں(4)آپؓ کی اولاد کی اولاد بھی صحا بی ہیں۔رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین۔
یہ صرف آپؓ کی خصو صیت ہے۔ آپؓ کا لقب ’’عتیق‘‘ بھی ہے۔ صحا بی کے درجات کو قر آن نے جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ حدیث پاک میں بھی نبی صادق نے بتایا، فر مایا:حضر ت ابو سعد خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،حدیث اس طرح سے ہے:
’’لاتسبُّو االصحا بی، فلواٰن اَحدَ کم مثل اَحَدٍذھَبًا مَا بَلَغ مُدَّاَحد ھم ولا نصیفَہ‘‘(اخرجہ الشیخان فی صحیحیھما)
’’میرے اصحاب کو برا مت کہو۔اگر کوئی شخص اُحُد پہاڑ کے برا بر بھی سونا(اللہ کی راہ میں) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مُد کے غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ آدھامد کے برابر۔‘‘( بخاری، اس حدیث کو عبداللہ بن داوؤد، ابو معا ویہ اور محا ضر نے بھی روایت فر مائی ہے) ۔
یہ ہے صحابہ کرامؓ کی عظمت و فضیلت کہ اگر کو ئی احد پہاڑ کے برا بر بھی سو نا صدقہ کردے اور صحا بہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین ایک مٹھی غلہ(جو) یا آدھی مٹھی بھی اللہ کی راہ میں دیدیں تو احد پہاڑ کے برا بر سونا دینے والا بھی صحا بہ کے برا بری نہیں کر سکتا۔ سبحا ن اللہ۔
حضرت ابو بکرؓ کی فضیلت میں بے شماراحا دیث ہیں ۔یہ حدیث مطا لعہ فر مائیں:
حضرت عبدا لعزیز بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کے زمانہ میں جب صحا بہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہاجاتا تو سب میں افضل اور بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ،پھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو(صحیح بخاری)۔
جب قر آن کریم واحا دیث طیبہ میں حضرتِ ابوبکر صدیقؓ کی شان و فضیلت کاذکر ہے تو کوئی انسان آپؓ کی تعریف کیا کر سکتا ہے؟ چند خو بیاں مطالعہ فر مائیں:
٭ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام قبول کر نے کے بعد تما م اسلامی جہادوں میں شامل رہے۔
٭ حق و با طل کی پہلی جنگ ’’جنگ ِ بدر‘‘، اُحُد،خندق،تبوک،حدیبیہ ، بنی نضیر، بنی مصطلق،حنین، خیبر، فتح مکہ سمیت تمام ’’غزوات‘‘(غزوہ)( وہ جہاد جس میں رسولِ کریم شریک ہوئے) میں سر کار دو عالم کی ہمرا ہی میںشا مل رہنے کا شرف حاصل رہا۔
٭ غزوہ تبوک میں آپؓ نے جو اطاعت رسول ؐ کیا، ایثار(قربانی) وسخا وت کا نمونہ اللہ کے راہ میں پیش کیا،جس کی مثال تاریخ عالم میں ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔اس غزوہ میں سر کار دوجہاں کی تر غیب( کسی کام کے کر نے پر آ مادہ کر نا) پر تمام صاحب استطاعت صحا بہ نے دل کھول کر لشکرِ اسلامی کی امداد کی مگر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سب پر اس طرح سبقت حاصل کی،کہ آپ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے۔جب رسو ل اللہ نے پو چھا کہ: اے بو بکر! گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھو ڑا ہے؟، توآپؓ نے عرض کیا’’گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہیں‘‘۔
پر وا نے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے خدا کا رسول بس
دور رسالت میں امامت و اول خلیفہ:
دورِرسالت کے آخری ایام میں رسول اللہ نے حضرتِ ابوبکر ؓ کو نمازوں کی امامت کا حکم دیا۔ آپؓ نے مسجدِنبویؐ میں سر کار دوعالم کے حکم پرمصلیٰ رسولؐ پر17 نمازوں کی امامت فر مائی۔ نبی کریم کا یہ اقدام آپؓ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ تھا۔ ایک بار نماز کے وقت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مدینہ سے با ہر تھے،حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپؓ کو نہ پاکر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو نماز کی امامت کو کہا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امامت کر واتا دیکھ کر آپ نے فر مایا: اللہ اور اس کا رسول یہ پسند کرتا ہے کہ ابو بکر( رضی اللہ عنہ) امامت کرے۔ یہ بات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر آپ کے اعتماد کا اظہارتھا کہ آپؓ ہی مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہوں ۔آپ کے اس دنیا سے پردہ فر مانے کے بعد صحابۂ کرامؓ کے مشورے سے آپؓ کو جا نشینِ رسولؐ مقر رکیا گیا۔ آپؓ کی تقرری امت مسلمہ کا پہلا اجماع کہلاتی ہے۔بارِ خلافت سبھا لنے کے بعد آپؓ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا۔ بہت طویل خطبہ میں بہت سی باتیں ارشاد فر مائیں:
فرمایا’’میں آپ لو گوں پر خلیفہ بنا یا گیا ہوں حا لا نکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں۔ اُس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب وامارت اپنی رغبت اور خوا ہش سے نہیں لیا،نہ میں یہ چا ہتا تھا کہ دوسرے کے بجا ئے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ سے اس کے لیے دعا کی اور نہ ہی کبھی میرے دل میںاس منصب کے لیے حرص لا لچ پیدا ہوئی‘‘۔
آپؓ کی حق گوئی سچائی کی جو باتیں آپؓ نے خطبہ میں فر مائیں ان میں سے یہ بھی ہے، فر مایا’’ سچا ئی امانت ہے،اور جھوٹ خیانت ہے‘‘ ۔آپ کی اس نصیحت پر ہم تمام مسلما نوں کو عمل پیرا ہونا چاہیے۔ دنیا وآخرت کی کامیابی اسی میں ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فر مارہا ہے : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جائو(التوبہ119)۔
اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم فر مائی ہے کہ انسان کو اپنی صحبت سچے لو گوںکے ساتھ رکھنی چاہیے، جو زبان کے بھی سچے ہوںاور عمل کے بھی سچے ہوں ۔سچائی ایک بہت بڑی نعمتِ عظمیٰ ہے اور سچوں پر اللہ کی رحمتیں برستی رہتی ہیں اور انعام کی بارشیں ہو تی ہیں۔ اللہ رب العزت اپنے متقی پر ہیز گا ر بندوں کے اوصاف بیان فر مارہا ہے:
’’(یہ) لوگ صبر کر نے والے ہیں اور قول وعمل میں سچا ئی وا لے ہیں اورآداب و اطاعت والے ہیں، جھکنے وا لے ہیں اور اللہ کی را ہ میں خرچ کر نے وا لے ہیں اور رات کے پچھلے پہر(اٹھ کر) اللہ سے معا فی ما نگنے وا لے ہیں( آل عمران17) ۔
مسلما نوں کو چا ہیے کی سچائی کاراستہ اختیار کریں، سچوں کی پیر وی کریں ،جھوٹ اور خیا نت سے دور رہیں، امانت داری میں ہی بھلائی اور نجات ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلما نوں کو سچائی پر چلنے کی تو فیق دے اور سچوں کی صحبت نصیب فر مائے، آ مین ثم آمین۔
One day Abu Bakr as-Siddiq Radi Allahu anhu came to Rasûlullah’s ‘sall-Allâhu ’alaihi wa
sallam’ place. He was about to enter, when Alî bin Abî Tâlib ‘radiy-Allâhu ’anh’ arrived,
too. Abû Bakr stepped backwards and said,
“After you, Ya Ali.” The latter replied and the following long dialogue took place between
them:
Hazarath Ali razi allah anhu - Ya Abâ Bakr, you go in first for you are ahead of us all in all goodnesses and acts of charity.
It is a collective agreement [Ijmāʻ] of the scholars of Ahl as-Sunnah wal-Jamāʻh that the greatest person in this Ummah is Abū Bakr, then ʿUmar, then ʿUs̱mān and then ʿAlī, radiyAllahu anhum.
The greatest Sufi masters have also affirmed this tenet of the Sunnī creed. Particularly, the Naqshbandī masters hold this belief firmly, not only based on the authentic narrations, but also by their Kashf.